تفسير ابن كثير



سورۃ الشعراء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَأَتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِينَ[60] فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ[61] قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ[62] فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ[63] وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ[64] وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ[65] ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ[66] إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ[67] وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ[68]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو انھوں نے سورج نکلتے ان کا پیچھا کیا۔ [60] پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا بے شک ہم یقینا پکڑے جانے والے ہیں۔ [61] کہا ہرگز نہیں! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔ [62] تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مار، پس وہ پھٹ گیا تو ہر ٹکڑا بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔ [63] اور وہیں ہم دوسروں کو قریب لے آئے۔ [64] اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے، سب کو بچالیا۔ [65] پھر دوسروں کو ڈبو دیا۔ [66] بے شک اس میں یقینا عظیم نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔ [67] اور بے شک تیرا رب، یقینا وہی سب پر غالب، بے حد رحم والا ہے۔ [68]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے [60] پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا، ہم تو یقیناً پکڑ لیے گئے [61] موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راه دکھائے گا [62] ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی ﻻٹھی مار، پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا [63] اور ہم نے اسی جگہ دوسروں کو نزدیک ﻻ کھڑا کر دیا [64] اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی [65] پھر اور سب دوسروں کو ڈبو دیا [66] یقیناً اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کےاکثر لوگ ایمان والے نہیں [67] اور بیشک آپ کا رب بڑا ہی غالب اور مہربان ہے؟ [68]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو انہوں نے سورج نکلتے (یعنی صبح کو) ان کا تعاقب کیا [60] جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ کے ساتھی کہنے لگے کہ ہم تو پکڑ لئے گئے [61] موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں میرا پروردگار میرے ساتھ ہے وہ مجھے رستہ بتائے گا [62] اس وقت ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی دریا پر مارو۔ تو دریا پھٹ گیا۔ اور ہر ایک ٹکڑا (یوں) ہوگیا (کہ) گویا بڑا پہاڑ (ہے) [63] اور دوسروں کو وہاں ہم نے قریب کردیا [64] اور موسیٰ اور ان کے ساتھ والوں کو تو بچا لیا [65] پھر دوسروں کو ڈبو دیا [66] بےشک اس (قصے) میں نشانی ہے۔ لیکن یہ اکثر ایمان لانے والے نہیں [67] اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے [68]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 60، 61، 62، 63، 64، 65، 66، 67، 68،

فرعون اور اس کا لشکر غرق دریا ہو گیا ٭٭

فرعون اپنے تمام لاؤ لشکر اور تمام رعایا کو مصر اور بیرون کے لوگوں کو اپنے والوں کو اور اپنی قوم کے لوگوں کو لے کر بڑ طمطراق اور ٹھاٹھ سے بنی اسرائیل کو تہس نہس کرنے کے ارادے سے چلا بعض کہتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی تھی۔ ان میں سے ایک لاکھ تو صرف سیاہ رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے لیکن یہ خبر اہل کتاب کی ہے جو تامل طلب ہے۔

کعب رضی اللہ عنہ سے تو مروی ہے کہ آٹھ لاکھ تو ایسے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ سب بنی اسرائیل کی مبالغہ آمیز روایتیں ہیں۔ اتنا تو قرآن سے ثابت ہے کہ فرعون اپنی کل جماعت کو لے کر چلا مگر قرآن نے ان کی تعداد بیان نہیں فرمائی نہ اس کو علم ہمیں کچھ نفع دینے والا ہے طلوع آفتاب کے وقت یہ ان کے پاس پہنچ گیا۔ کافروں نے مومنوں اور مومنوں نے کافروں کو دیکھ لیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے منہ سے بےساختہ نکل گیا کہ موسیٰ علیہ السلام اب بتاؤ کیا کریں۔ پکڑ لیے گئے آگے بحر قلزم ہے پیچھے فرعون کاٹڈی دل لشکر ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔

ظاہر ہے کہ نبی اور غیر نبی کا ایمان یکساں نہیں ہوتا موسیٰ علیہ السلام نہایت ٹھنڈے دل سے جواب دیتے ہیں کہ گھبراؤ نہیں تمہیں کوئی ایذاء نہیں پہنچا سکتی میں اپنی رائے سے تمہیں لے کر نہیں نکلا بلکہ احکم الحکمین کے حکم سے تمہیں لے کر چلا ہوں۔ وہ وعدہ خلاف نہیں ہے۔‏‏‏‏

ان کے اگلے حصے پر ہارون علیہ السلام تھے انہی کے ساتھ یوشع بن نون تھے یہ آل فرعون کا مومن شخص تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام لشکر کے اگلے حصے میں تھے۔ گھبراہٹ کے مارے اور راہ نہ ملنے کی وجہ سے سارے بنو اسرئیل ہکا بکا ہو کر ٹھہر گئے اور اضطراب کے ساتھ جناب کلیم اللہ علیہ السلام سے دریافت فرمانے لگے کہ اسی راہ پر چلنے کا اللہ کا حکم تھا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں۔‏‏‏‏ اتنی دیر میں تو فرعون کا لشکر سر پر آ پہنچا۔ اسی وقت پروردگار کی وحی آئی کہ ” اے نبی! اس دریا پر اپنی لکڑی مارو۔ اور پھر میری قدرت کا کرشمہ دیکھو “۔ آپ علیہ السلام نے لکڑی ماری جس کے لگتے ہی بحکم اللہ پانی پھٹ گیا اس پریشانی کے وقت موسیٰ علیہ السلام نے جو دعا مانگی تھی۔ وہ ابن ابی حاتم میں ان الفاظ سے مروی ہے «يَا مَنْ كَانَ قَبْل كُلّ شَيْء وَالْمُكَوِّن لِكُلِّ شَيْء وَالْكَائِن بَعْد كُلّ شَيْء اِجْعَلْ لَنَا مَخْرَجًا» یہ دعا موسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نکلی ہی تھی کہ اللہ کی وحی آئی کہ ” دریا پر اپنی لکڑی مارو “۔
6185

حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس رات اللہ تعالیٰ نے دریا کی طرف پہلے ہی سے وحی بھیج دی تھی کہ جب میرے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام آئیں اور تجھے لکڑی ماریں تو تو ان کی بات سننا اور ماننا پس سمندر میں رات بھر تلاطم رہا اس کی موجیں ادھر ادھر سر ٹکراتی پھیریں کہ نہ معلوم علیہ السلام کب اور کدھر سے آ جائیں اور مجھے لکڑی مار دیں ایسا نہ ہو کہ مجھے خبر نہ لگے اور میں ان کے حکم کی بجا آوری نہ کرسکوں جب بالکل کنارے پہنچ گئے تو آپ علیہ السلام کے ساتھی یوشع بن نون رحمۃ اللہ نے فرمایا اے اللہ کے نبی! اللہ کا آپ کو کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا یہی کہ میں سمندر میں لکڑی ماروں۔‏‏‏‏ انہوں نے کہا پھر دیر کیا ہے؟

چنانچہ آپ علیہ السلام نے لکڑی مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے تو پھٹ اور مجھے چلنے کا راستہ دیدے۔ اسی وقت وہ پھٹ گیا راستے بیچ میں صاف نظر آنے لگے اور اس کے آس پاس پانی بطور پہاڑ کے کھڑا ہو گیا۔ اس میں بارہ راستے نکل آئے بنو اسرائیل کے قبیلے بھی بارہ ہی تھے۔ پھر قدرت الٰہی سے ہر دو فریق کے درمیان جو پہاڑ حائل تھا اسمیں طاق سے بن گئے تاکہ ہر ایک دوسرے کو سلامت روی سے آتا ہوا دیکھے۔ پانی مثل دیواروں کے ہو گیا۔ اور ہوا کو حکم ہوا کہ اس نے درمیان سے پانی کو اور زمین کو خشک کر کے راستے صاف کر دیئے پس اس خشک راستے سے آپ مع اپنی قوم کے بے کھٹکے جانے لگے۔

پھر فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے دریا سے قریب کر دیا پھر موسیٰ علیہ السلام اور بنواسرائیل اور سب کو تو نجات مل گئی۔ اور باقی سب کافروں کو ہم نے ڈبودیا نہ ان میں سے کوئی بچا۔ نہ ان میں سے کوئی ڈوبا۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرعون کو جب بنو اسرائل کے بھاگ جانے کی خبر ملی تو اس نے ایک بکری ذبح کی اور کہا اس کی کھال اترنے سے پہلے چھ لاکھ کا لشکرجمع ہو جانا چاہیئے۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام بھاگم بھاگ دریا کے کنارے جب پہنچ گئے تو دریا سے فرمانے لگے تو پھٹ جا کہیں ہٹ جا اور ہمیں جگہ دیدے اس نے کہا یہ کیا تکبر کی باتیں کر رہے ہو؟ کیا میں اس سے پہلے بھی کبھی پھٹا ہوں؟ اور ہٹ کر کسی انسان کو جگہ دی ہے جو تجھے دوں گا؟ آپ علیہ السلام کے ساتھ جو بزرگ شخص تھے انہوں نے کہا اے نبی علیہ السلام کیا یہی راستہ اور یہی جگہ اللہ کی بتلائی ہوئی ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں یہی انہوں نے کہا پھر نہ تو آپ علیہ السلام جھوٹے ہیں نہ آپ علیہ السلام سے غلط فرمایا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے دوبارہ یہی کہا لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ اس بزرگ شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا اسی وقت وحی اتری کہ ” سمندر پر اپنی لکڑی مار “۔ اب آپ علیہ السلام کو خیال آیا اور لکڑی ماری لکڑی لگتے ہی سمندر نے راستہ دے دیا۔ بارہ راہیں ظاہر ہو گئیں ہر فرقہ اپنے راستے کو پہچان گیا اور اپنی راہ پر چل دیا اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بہ اطمینان تمام چل دئیے۔ موسیٰ علیہ السلام تو بنی اسرائیل کو لے کر پار نکل گئے اور فرعونی ان کے تعاقب میں سمندر میں آ گئے کہ اللہ کے حکم سے سمندر کا پانی جیسا تھا ویسا ہو گیا اور سب کو ڈبودیا۔ جب سب سے آخری بنی اسرائیلی نکلا اور سب سے آخری قبطی سمندر میں آ گیا اسی وقت جناب باری تعالیٰ کے حکم سے سمندر کا پانی ایک ہو گیا اور سارے کے سارے قبطی ایک ایک کر کے ڈبودیئے گئے۔‏‏‏‏

” اس میں بڑی عبرتناک نشانی ہے کہ کس طرح گنہگار برباد ہوتے ہیں اور نیک کردار شاد ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر لوگ ایمان جیسی دولت سے محروم ہیں۔ بیشک تیرا رب عزیز ورحیم ہے “۔
6186



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.